جی ہاں، حالیہ بیانات میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما مولانا راشد محمود سومرو نے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی ممکنہ خلاف ورزی پر سخت ردعمل دیا ہے۔ انہوں نے گھوٹکی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ اگر بھارت نے پاکستان کو پانی سے محروم کرنے کی کوشش کی تو پاکستان تنہا نہیں ہوگا، اور وہ خود افواجِ پاکستان کے شانہ بشانہ لڑنے کو تیار ہیں۔
مولانا سومرو نے جذباتی انداز میں کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ دشمن کی سرزمین میں گھس کر دارالعلوم دیوبند میں ناشتہ بھی کریں گے، یہ بیان بھارت کو ایک سخت پیغام دینے کے لیے دیا گیا تھا کہ پاکستان اپنے آبی حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
یہ بیانات اس وقت سامنے آئے جب بھارت میں سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کی باتیں زور پکڑ رہی تھیں، خاص طور پر مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں فائرنگ کے واقعے کے بعد، جس کے بعد بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا پر پاکستان پر الزامات لگائے گئے اور معاہدے کی منسوخی کی باتیں کی جانے لگیں۔
زبردست! تو آئیے سندھ طاس معاہدے کی تھوڑی سی تفصیل دیکھتے ہیں تاکہ اس کی اہمیت اور حالیہ کشیدگی کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔
💧 سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟
- تاریخ: یہ معاہدہ 1960 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہوا، جس کی ثالثی عالمی بینک نے کی۔
- مقصد: دونوں ممالک کے درمیان دریاؤں کے پانی کی تقسیم کو منظم کرنا۔
- تقسیم:
- بھارت کو تین مشرقی دریا دیے گئے: ستلج، بیاس، راوی
- پاکستان کو تین مغربی دریا دیے گئے: سندھ، جہلم، چناب
⚠️ بھارت کی ممکنہ خلاف ورزیاں
- بھارت نے بعض اوقات مغربی دریاؤں پر ڈیمز اور آبی منصوبے شروع کیے جن پر پاکستان نے اعتراض کیا۔
- پاکستان کا مؤقف ہے کہ یہ منصوبے معاہدے کی روح کے خلاف ہیں اور اس سے پاکستان کے پانی کے حقوق متاثر ہو سکتے ہیں۔
🛡️ پاکستان کا ردعمل
- سیاسی و مذہبی قیادت، جیسے مولانا راشد محمود سومرو، نے سخت مؤقف اپنایا ہے۔
- پاکستان نے عالمی سطح پر بھی اس معاملے کو اٹھایا ہے، خاص طور پر عالمی بینک اور اقوام متحدہ میں۔
🌍 بین الاقوامی اہمیت
- سندھ طاس معاہدہ دنیا کے کامیاب ترین آبی معاہدوں میں شمار ہوتا ہے۔
- اگر یہ معاہدہ ختم ہوتا ہے یا اس کی خلاف ورزی ہوتی ہے، تو خطے میں آبی جنگ کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
اگر آپ چاہیں تو میں اس موضوع پر ایک مختصر تقریر، مضمون یا پریزنٹیشن بھی تیار کر سکتا ہوں۔ یا پھر ہم اس بات پر بات کر سکتے ہیں کہ پاکستان کو سفارتی سطح پر کیا اقدامات کرنے چاہییں۔
0 Comments