صدارتی طرز حکومت اور اسلامی نظام کا نفاز پاکستان کیلے ناگزیر ھوچکا ہے،محمد قذافی خان

Breaking News

6/recent/ticker-posts

صدارتی طرز حکومت اور اسلامی نظام کا نفاز پاکستان کیلے ناگزیر ھوچکا ہے،محمد قذافی خان

صدارتی طرز حکومت اور اسلامی نظام کا نفاز پاکستان کیلے ناگزیر ھوچکا ہے،محمد قذافی خان 

اسلام اباد (نظام عدل نیوز)پاکستان تحریک انصاف کے نوجوان راھنما محمد قذافی خان نے کہا ھے کہ صدارتی طرز حکومت اور اسلامی نظام کا نفاز پاکستان کیلے ناگزیر ھوچکا ھے ۔ قوم کی امیدوں پر پورا اترنے کیلے پارلیمانی نظام میں گنجائش نھی میڈیا سے گفتگو کرتے ھوئے قذافی خان کا کہنا تھا پاکستان کا پارلیمانی نظام 1935ء کے ایکٹ کا تسلسل ہے جسے برطانوی پارلیمنٹ نے اپنی کالونی ہندوستان کے لیے منظور کیا جو’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کے اصول پر تشکیل دیا گیا تھا۔ برصغیر ہندوستان کو سیاسی طور پر انتخابی حلقوں میں تقسیم کیا گیا۔ کانگرس اور مسلم لیگ کے لیڈروں نے انیس سو پینتیس کے ایکٹ کی مخالفت کی اور مؤقف اختیار کیا کہ ہندوستان کی سرزمین پر چونکہ مختلف مذہبوں قوموں قبیلوں نسلوں زبانوں اور فرقوں کے لوگ آباد ہیں لہٰذا پارلیمانی جمہوریت عوام کے مزاج اور اہلیت کے مطابق نہیں ہے۔ انھوں نے مزید کہا علامہ اقبال نے علمی اور فکری انداز میں مغربی جمہوریت کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس نظام میں بندوں کو گنتے ہیں اور تولتے نہیں ہیں ، دو سو گدھوں کا دماغ ایک انسان کامل اور مرد مومن کے دماغ کے برابر نہیں ہوسکتا ۔ مغربی جمہوریت ایک شیطانی نظام ہے جس کا مقصد دنیا میں سامراجی سرمایہ دارانہ مفادات کا تحفظ اور دفاع ہے۔ علامہ اقبال نے کہا کہ جمہوریت سماجی اور روحانی ہونی چاہیے تاکہ ریاست کے شہریوں کو مساوی مواقع اور مساوی مراعات حاصل ہوسکیں۔ قائداعظم نے بھی مغربی پارلیمانی جمہوری اور معاشی نظام کو عوام کے مزاج اور اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق ڈھالنے کی ہدایت کی تھی جس کا دوٹوک الفاظ میں اظہار قائداعظم نے اپنے خطاب سٹیٹ بینک کے افتتاح کے موقع پر کیا تھا۔ امریکہ نے برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد اپنے عوام کے مزاج اور معروضی حالات کے مطابق برطانوی پارلیمانی نظام کو ترک کر کے صدارتی نظام اپنایا جو آج بھی بڑی کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے۔ پاکستان میں بدقسمتی سے آج بھی انگریزوں کا پارلیمانی نظام رائج ہے جو امریکہ برطانیہ کے سامراجی اور حکمران اشرافیہ کے طبقاتی مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ جبکہ عام آدمی اپنے بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہے۔ برصغیر کی آزادی 1935ء کے ایکٹ اور انڈین انڈی پینڈنس ایکٹ کے تحت عمل میں آئی۔ آئین اور قوانین میں یہ گنجائش رکھی گئی تھی کہ گورنر جنرل نئے حالات کیمطابق اپنے اختیارات میں اضافہ کر سکتا ہے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے مشترکہ گورنر جنرل بننے کے سلسلے میں قائداعظم سے تبادلہ خیال کیا ‘گفتگو کے دوران یہ دلیل بھی پیش کی کہ ’’برطانوی قوانین اور پارلیمانی جمہوریت کے مطابق اختیارات کا مرکز وزیراعظم ہوتا ہے جبکہ گورنر جنرل ریاست کا علامتی سربراہ ہوتا ہے، قائداعظم نے گورنر جنرل بننے کا فیصلہ کیا تو بھارت اور برطانیہ کی رائے عامہ اس فیصلے کو پسند نہیں کرے گی۔ قائد اعظم نے سرد مہری سے جواب دیا کہ میں پاکستان کا گورنر جنرل ہوں گا اور وزیراعظم وہی کرے گا جو میں اس سے کہوں گا۔‘‘ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا ملک میں صدارتی نظام ھوتا تو لوٹوں کی بنیاد پر حکومت نہ گرتی پارلیمانی نظام میں بریف کیس پوری قوم پر حاوی ھے

Post a Comment

0 Comments