بریکنگ نیوز چیئرمین تحریک انصاف کا صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو خط
اسلام آباد نظام عدل نیوز /چیئرمین تحریک انصاف کا صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو لکھے گئے خط میں ملک میں آئین و قانون کے انحراف کی راہ روکنے کیلئے اقدامات اٹھانے کا اور
شہریوں کے بنیادی آئینی حقوق کے تحفظ کے اہتمام پر بھی زور دینے کا مطالبہ خط میں کہا گیا کہ جب سے تحریک انصاف کی حکومت کو گرایا گیا ہے، قوم میری حقیقی آزادی کی پکار پر کھڑی ہوچکی ہے
ہمیں جھوٹے الزامات، حراسگی، بلاجواز گرفتاریوں حتیٰ کہ زیر حراست تشدد جیسے ہتھکنڈوں کا سامنا ہےجبکہ وزیر داخلہ بار بار مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں دیتا رہا ہےخط میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے مذید کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف، وزیرِداخلہ رانا ثناءاللہ اور آئی ایس آئی کے ڈی جی سی میجر جنرل فیصل نصیر کیجانب سے میرے قتل کا منصوبہ میرے علم میں لایا گیاگزشتہ ہفتے ہمارے حقیقی آزادی مارچ کے دوران اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی گئی لیکن اللہ رب العزت نے مجھے بچایا اور میرے قتل کی کوشش ناکام رہی
بطور سربراہِ ریاست اور دستور کے آرٹیکل 243(2) کے تحت افواجِ پاکستان کے سپریم کمانڈر کے طور پر آپ سے التماس ہے کہ قومی سلامتی سے جڑے ان معاملات کا فوری نوٹس لیں صدرِ مملکت اپنی قیادت میں ذمہ داروں کے تعین کیلئے تحقیقات، ان ذمہ داروں کے محاسبے کا اہتمام کریں عمران خان کی طرف سے خط میں مذید کہا گیا کہ بطور وزیراعظم میرے، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے مابین گفتگو میڈیا کو جاری کرکے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دھجیاں اڑائی گئیں سنجیدہ ترین سوال پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم کی محفوظ گفتگو پر نقب لگانے کا ذمہ دار کون ہےوزیراعظم کی محفوظ لائن پر یہ نقب قومی سلامتی پر اعلیٰ ترین سطح کا حملہ ہےامریکہ سے ہمارے سفیر نے تبدیلئ حکومت کی امریکی دھمکی پر مشتمل خفیہ مراسلہ بھجوایا،میری وزارتِ عظمیٰ کے دوران اس مراسلے پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بھی ہواقومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں واضح فیصلہ کیا گیا کہ یہ ہمارے اندرونی معاملات میں ناقابلِ قبول مداخلت ہےقومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے فیصلے کے تحت دفترِ خارجہ نے امریکی سفیر کو احتجاجی مراسلہ (ڈی مارش) دینے کا فیصلہ کیا گیاشہباز شریف کے دورِ حکومت میں منعقد ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں اس اجلاس کی کارروائی/فیصلوں کی توثیق کی27 اکتوبر کو آئی ایس پی آر اور آئی ایس آئی کے ڈی جیز نے مشترکہ پریس کانفرنس کی اس پریس کانفرنس میں قومی سلامتی کمیٹی کے دونوں اجلاسوں کے فیصلوں سے یکسر متضاد نکتۂ نظر اپنایا گیاسوال پیدا ہوتا ہے کہ دو فوجی افسران کیونکر کھلے عام قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلوں کو جھٹلا سکتے ہیں اس پریس کانفرنس سے ان فوجی افسران کی جانب سے جان بوجھ کر غلط بیانیے کی تخلیق کی کوشش کا سنجیدہ ترین معاملہ بھی پیدا ہوتا ہے
اس حوالے سے قابلِ غور اور جواب طلب دو اہم ترین سوالات بھی جنم لیتے ہیں اوّل یہ کہ پاکستان کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی کا سربراہ پریس کانفرنس سے مخاطب ہو کیسے سکتا ہےدو عسکری افسران کیسے مکمل طور پر ایک سیاسی پریس کانفرنس میں وفاقِ پاکستان کی سب سے بڑی اور واحد سیاسی جماعت کے سربراہ کو نشانہ بنا سکتے ہیں عساکر کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے حدودِ کار کو دفاعی و عسکری معاملات پر معلومات کے اجراء تک محدود کرنے کی ضرورت ہےافواجِ پاکستان کے سپریم کمانڈر کے طور آپ سے التماس ہے کہ آپ آئی ایس پی آر کی حدودِ کار کے تعین کے عمل کا آغاز کریں
0 Comments